زکات اسلام کا ایک بہت اہم اصول ہے، جس کے مطابق مسلمانوں کو ہر سال اپنے مال کا ایک طے شدہ حصہ غریبوں اور محتاجوں کو دینا ضروری ہے۔ زکات دینا نہ صرف دولت کی دوبارہ تقسیم کرتا ہے بلکہ معاشرتی خود انحصاری اور مساوات کو فروغ دیتا ہے۔

زکات کا حساب لگانے کے چند آسان مراحل ہیں۔

1. کل اثاثوں کی قیمت کا تعین کریں
زکات کا حساب آپ کے اثاثوں (سونا، نقدی، بچتیں، کاروباری اثاثے وغیرہ) کی قیمت پر مبنی ہوتا ہے، جسے "نصاب" کہا جاتا ہے۔

اثاثوں کی اقسام:

1. نقدی
2. سونا اور چاندی
3. بینک بیلنس اور بچتیں
4. کاروباری اثاثے (مثلاً دکان، مشینری وغیرہ)
5. کھیت، گھر، گاڑیاں (جو کمانے کے مقصد کے لیے رکھی گئی ہوں، ذاتی استعمال کے لیے نہ ہوں)

2. نصاب کو سمجھیں (کم سے کم حد)
اسلام میں، نصاب وہ کم سے کم حد ہے جس پر زکات دی جاتی ہے۔ یہ سونے یا چاندی کی قیمت پر مبنی ہوتا ہے۔

سونا: 87.48 گرام سونا (یا اس کی قیمت)
چاندی: 612.36 گرام چاندی (یا اس کی قیمت)

اگر آپ کی کل دولت نصاب سے زیادہ ہو، تو آپ پر زکات دینا ضروری ہے۔

3. زکات کا فیصد
زکات کی شرح 2.5% ہے، جو ایک قمری سال (ہجری سال) تک رکھی گئی دولت پر لاگو ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کی کل دولت نصاب سے ایک سال تک زیادہ رہے، تو آپ کو 2.5% زکات کے طور پر دینا ہوگا۔

4. زکات کا حساب:
سب سے پہلے، اپنے اثاثوں کی کل قیمت کا تعین کریں۔
پھر اس کا 2.5% زکات کے طور پر حساب کریں۔

مثال:

فرض کریں آپ کی کل دولت ₹1,00,000 ہے (جو نصاب سے زیادہ ہے)۔
زکات کی رقم ہوگی:
₹1,00,000 × 2.5% = ₹2,500

اس طرح، آپ کو ₹2,500 زکات کے طور پر ادا کرنا ہوگا۔

5. نوٹ:
اگر آپ کی دولت نصاب سے کم ہو، تو آپ پر زکات دینا ضروری نہیں ہے۔

زکات غریبوں، یتیموں اور محتاجوں کو دی جانی چاہیے۔

اگر آپ کے پاس کئی قسم کے اثاثے ہیں، تو ان کی قیمتوں کو ملا کر اپنی کل دولت کا حساب لگائیں، پھر اس کے مطابق زکات کا تعین کریں۔

زکات کی اہمیت:
زکات نہ صرف ایک مذہبی فرض ہے بلکہ یہ معاشرتی طور پر دولت کو ضرورت مندوں تک پہنچانے کا ایک طریقہ بھی ہے۔ یہ معاشرتی اور اقتصادی ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔

نتیجہ:
زکات کا حساب لگانا آسان ہے مگر یہ آپ کی دولت کی قیمت اور ضروریات پر منحصر ہوتا ہے۔ وقت پر زکات ادا کرنا آپ کی دولت کو پاک کرتا ہے اور معاشرے کی مدد کا ایک ذریعہ بنتا ہے۔